پاکستان کی حکومت اور گندم کی قیمتوں کا المیہ

اکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں کی معیشت کا بڑا حصہ کاشتکاروں اور کسانوں کی محنت پر کھڑا ہے

پاکستان کی حکومت اور گندم کی قیمتوں کا المیہ
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں کی معیشت کا بڑا حصہ کاشتکاروں اور کسانوں کی محنت پر کھڑا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہی کسان، جو دن رات دھوپ، بارش اور سخت محنت کے بعد فصل تیار کرتا ہے، اکثر حکومتی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے نقصان اٹھاتا ہے۔
اسی کی ایک بڑی مثال گندم کی خرید و فروخت ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے کسانوں سے گندم 2200 روپے فی من کے حساب سے خریدی۔ اس وقت کسانوں کو یہ امید تھی کہ کم از کم ان کی محنت کا صلہ ملے گا اور وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہوں گے۔ مگر افسوس کہ چند ہی ماہ بعد وہی گندم مارکیٹ میں 3700 روپے فی من تک پہنچ گئی۔
اس صورتحال میں دو بڑے سوالات پیدا ہوتے ہیں:
1. اگر گندم اتنی زیادہ قیمت پر فروخت ہونی تھی تو کسان سے کم قیمت پر کیوں خریدی گئی؟
2. جب کسان ہی اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو سب سے زیادہ نقصان اسی کو کیوں سہنا پڑتا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور سرمایہ داروں نے اس موقع پر زبردست منافع کمایا۔ کسان نے پسینہ بہا کر فصل تیار کی، مگر اس کے بدلے میں اسے کم قیمت ملی۔ دوسری طرف سرمایہ کاروں نے بغیر محنت کیے صرف ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے ذریعے بھاری فائدہ حاصل کیا۔
یہ نظام کسان کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسان مایوس ہوتا ہے، قرضوں میں ڈوبتا ہے، اور اکثر اپنی اگلی فصل کے لیے سرمایہ نہیں بچا پاتا۔ جب کسان ہی خوشحال نہیں ہوگا تو ملک کی معیشت کیسے ترقی کرے گی؟
حل
• حکومت کو چاہیے کہ کسان کے لیے سپورٹ پرائس (قیمت خرید) حقیقت کے مطابق مقرر کرے تاکہ کسان کو اس کی محنت کا پورا صلہ مل سکے۔
• گندم اور دیگر اجناس کی براہِ راست منڈی میں فروخت کے لیے سہولت فراہم کی جائے تاکہ کسان کو بیچ میں موجود دلالوں اور سرمایہ داروں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
• ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی پر سخت پابندی لگائی جائے۔
نتیجہ
اگر پاکستان کو حقیقی ترقی کی طرف لے جانا ہے تو کسان کو بچانا ہوگا۔ کیونکہ جس دن کسان ہل چلانا چھوڑ دے گا، اسی دن ملک کی غذائی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کسان کی خوشحالی ہی ملک کی خوشحالی ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *